نا ہی جسم میرا ہے نہ ہی مرضی میری ہے
ہر پاکستانی مسلمانوں پر فرض ہے کہ اس کو پڑھیں اور آگے شیئر کریں تاکہ ہم ان بے حیا لوگوں سے اپنے معاشرے کو بچا سکے
King khan
اللہ تعالی نے انسان کو کمزور پیدا کیا ہے
انسان دنیا مین اپنی مرضی سے نا آتا ہے اور نہ ہی اپنی مرضی سے اس دنیا سے جاتا ہے
انسان کو جو بھی امراض لاحق ہوتی ہیں وہ اس کی مرضی سے لاحق نہیں ہوتی
اگر انسانی سوچ کو دیکھا جائے تو اپنی عمر کو طویل اور جسم کو صحت مند دیکھنا چاہتا ہے لیکن یہ سب اس کے کنٹرول میں نہیں ہے تو پھر میں کیسے کہوں کہ میرا جسم میری مرضی
اسلامی معاشرے میں عورت کا ایک بلند مقام ہے جس چیز کے لئے انسان کو اس دنیا میں بھیجا جاتا ہے پھر وہ ساری زندگی جدوجہد کرتا ہے
اور اپنی عبادت کے بعد ہر وقت اللہ سے اس چیز کی طلب کرتا ہے وہ ایک عورت کے قدموں کے نیچے ہے جس کو ہم جنت کہتے ہیں
کون ہے وہ جنت کا طلبگار نہیں
لیکن جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے
اس سے بھی بلند مقام کسی معاشرےمیں عورت کو مل سکتا ہے میرے خیال میں کبھی نہیں
عورت بہن کے روپ میں ہو تو میری غیرت ہے
عورت بیوی کے روپ میں ہو تو میری عزت ہے
عورت ماں کے روپ میں ہو تو میری جنت ہے
عورت بیٹی کے روپ میں ہو تو میری رحمت ہے
میرا جسم میری مرضی
یہ ‘میرا جسم میری مرضی’ جملہ شروع تو ایک نام نہاد لبرل سوچ رکھنے والے خواتین و حضرات نے کیا تھا۔
مگر دیکھتے ہی دیکھتے یہ سوچ یا جملہ شہرت کی بلندیوں کو چھونے لگا۔ معاشرہ دو حصوں میں بٹ گیا۔
کوئی اس کی حمایت کرتا نظر آیا۔ تو کسی نے اسکی مخالفت میں زمین آسمان ایک کر دیئے۔
اس جملے کے تخلیق کار نے اسکی حمایت میں ایسے ایسے دلائل پیش کئے کہ دیکھنے اور سننے والے سوچ میں پڑ گئے کہ کیا واقعی عورت کو اپنے وجود پر مکمل آزادی حاصل نہیں ہے؟۔
کیا عورت واقعی مجبور اور بے بس ہے؟ ۔
پاکستانی معاشرے خواتین کا عالمی دن منایا گیا
جس میں خواتین و حضرات نے ایسے پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے کہ جس نے پاکستانی معاشرے کی بنیاد ہلانے کی کوشش کی۔
مگر اللہ سلامت رکھے ہمارے اسلامی نظام کو جس نے ان کے ارادوں کو مسترد کر دیا۔
مگر میرا پیغام اس سے یکسر مختلف ہے۔ وہ یہ کہ جتنی مادر پدر آزادی ہمارے معاشرے میں بڑھتی جا رہی ہے اور نام نہاد عورتوں اور لڑکیوں کو برہنہ کیا جا رہا ہے۔ اس کے نتائج سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ میرا مطلب قیامت خیز و خبر سے ہیں ۔
اب مجھے کوئی یہ بتائے کہ میرا جسم، میری مرضی کا نعرہ لگانے والے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ جتنا معاشرہ مادر پدر آزادی کی طرف جا رہا ہے۔ اتنا ہی بربادی اور گمراہی کی طرف جا رہا ہے.
خدارا یہ نعرہ ختم کر دیں کیونکہ بقول مولانا رومی کے “کسی بھی معاشرے کو تباہ کرنا ہو تو اس کے نوجوانوں میں فحاشی پھیلا دو”۔
اگر ہمارے معاشرے میں بھی آزادی کے نام پر فحاشی پھیل گئی تو اس فحاشی کو کوئی نہیں روک سکے گا۔
اور جہاں تک بات ہے عورت کے مقام کی تو اسلام عورت کو کو بہت اونچا اعلیٰ مقام دیتا ہے ہے یہ تو کچھ فحش لوگ فحاشی دیکھنے کے لیے اس طرح کی عورتوں کو بازاروں میں لاکر ان کی کی عزت کو نیلام کرتے ہیں
ان کو عزت نہیں دیتے
اسلام دین فطرت انسانی کا مظہر ہے جس کی تعلیمات کے مطابق بنیادی حقوق کے لحاظ سے سب انسان برابر ہیں ہر بچہ فطرت اسلام پر ہی پیدا ہوتا ہے اور سب انسان اولاد آدم ہیں اس لحاظ سے اسلام میں جنس کی بنیاد پر عورت مرد کی کوئی تفریق نہیں اللہ کے نزدیک دونوں ہی اس کی مخلوق ہیں چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ
(ترجمہ)اے لوگو!اپنے اس رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک ہی جان سے پیدا کیا اور اسکی جنس سے اس کا جوڑا پیدا کیااور ان دونوں سے بہت سارے مرد اور عورتیں پھیلادیں(النساء 1-4)
اسلام میں عمل اور اجر میں مرد وعورت مساوی ہیں چنانچہ قرآن پاک میں واضح کردیا گیا کہ
(ترجمہ) ’’مردوں کو اپنی کمائی کا حصہ ہے اور عورتوں کو اپنی کمائی کا حصہ ہے اور (دونوں)اللہ سے اس کا فضل مانگو‘‘(سورۃ النساء32)
مزید فرمایا (ترجمہ) اور جو کوئی نیک عمل کرے گا،وہ مرد ہو یا عورت بشرط وہ مومن ہوتو ایسے لوگ جنت میں داخل ہونگے اور ان کی ذرا بھی حق تلفی نہ ہوگی‘‘ (النساء 124)
قرآن پاک کے علاوہ کئی احادیث رسولؐ میں بھی عورتوں کے حقوق، فرائض اور ان کی معاشرے میں اہمیت کا ذکر موجود ہے خاتم النبین حضرت محمد ؐ نے ایک حدیث میں عورت کے وجود کو دنیا میں محبوب قرار دیا آپ ؐ نے فرمایا کہ’’ مجھے تمہاری دنیا کی چیزوں میں سے خوشبو اور عورتیں محبوب بنائی گئی ہیں اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ہے‘‘
(الحدیث)’’عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو‘‘
(الحدیث)دیگر فرمایا ’’جس شخص نے 3لڑکیوں کی پرورش کی پھر ان کو ادب سکھایا اور ان کی شادی کی اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا تو اس کے لیے جنت ہے‘‘ (ابوداؤد)
الفرض قرآن وحدیث میں کثیر تعداد میں ایسے احکامات الغرض موجود ہیں جس سے اسلام میں عورت کے مقام ،اہمیت اور اس کے حقوق کا تعین ہوتا ہے اسلام واحد دین ہے جس نے عورت کو ذلت وپستی سے نکال کر اسے شرف انسانیت بخشا جبکہ اسلام سے پہلے دیگر مذاہب میں عورت کو ذلت، رسوائی وتحقیر کی علامت سمجھا جاتا تھا۔
ہندو مت میں خاوند کی موت کے ساتھ عورت کو بھی ستی کردیا جاتا تھا یعنی اسے بھی زندہ جلادیا جاتا تھا
جبکہ عرب معاشرے میں اسلام سے پہلے دور جاہلیت میں لڑکی پیدا ہونے پر اسے زندہ درگورکردیا جاتا تھا قرآن پاک میں اس بہیمانہ ظلم کا ذکر موجودہے
حضرت عمرؓ فاروق اس دور جاہلیت کے معاشرے میں گواہی دیتے ہیں کہ ’’قسم بخدا ہم دور جاہلیت میں عورتوں کو کوئی حیثیت ہی نہیں دیتے تھے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں اپنی ہدایت نازل کی اور ان کے لیے جو کچھ حصہ مقرر کرنا تھا مقرر کیا‘‘
(صحیح مسلم شریف)اسلام نے اُس ذلت اور رسوائی سے عورت کو نجات دلائی اور اسے زندہ رہنے کا حق دیا بلکہ زندہ درگور کرنے والوں کو آگاہ کیا کہ اس جرم کا ضرور ان سے سوال ہوگا
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ’’(ترجمہ)جب کہ زندہ درگور لڑکی کے بارے میں پوچھا جائیگا کہ کس گناہ میں وہ ماری گئی‘‘(سورۃ التکویر9-8)
اسلام نے معاشرے میں عورت کے حقوق، فرائض ودیگر مسائل کے لیے سورۃ النساء میں تفصیلی احکامات دیے ہیں جس میں نکاح،طلاق، خلع، وراثت ودیگر صنفی مسائل میں رہنمائی کی گئی ہے
عورت کی عزت عصمت کی حفاظت کے لیے حجاب(پردہ)کا حکم دیا گیا ہے تاکہ معاشرے میں پاکیزگی واخلاقی اقدار برقراررہیں
چنانچہ قرآن پاک میں واضح کہا گیا ہے کہ (ترجمہ)’’مومن عورتوں سے کہہ دو کہ ان کی آنکھوں میں حیا ہو اور اپنی شرم گاہوں کی پردہ پوشی کریں اور اپنا بناؤ سنگھار ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو خود ظاہر ہوجائے اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھینوں کے آنچل ڈالے رہیں‘‘
(سورۃ النور)پردے کا مقصد عورت کو معاشرتی وخاندانی نظام سے الگ رکھنا نہیں بلکہ عورت سورۃ النور میں بیان کردہ احتیاطی تدابیر کے ساتھ خاندانی، معاشرتی نظام واجتماعیت میں اپنا کردار ادا کرسکتی ہے ہمارا دین اس ضمن میں کسی انتہا پسندی کی تعلیم نہیں دیتا
حضور اکرمؐ نے فرمایا’’دین آسان ہے لوگو کے لیے آسانی پیدا کرو لوگوکو مشکلات میں مت ڈالو‘‘(صحیح بخاری)
مغرب میں آزادی نسواں ومساوات مرد وزن کے نعرے کے تحت عورتوں کے حقوق کی جو تحریک ہے اس میں حقوق وفرائض سے زیادہ اسلام کے قوانین وتعلیمات کو ہی نشانہ بنایا گیا ہے پردہ، طلاق، تعدادازواج ،عورت کی گواہی اور وراثت میں نصف حصہ اور ہر سطح پر مساوی آزادی کا مطالبہ کرکے یہ پروپگنڈا کیا جاتا ہے کہ پردہ عورت کو قید کرنے کے مترادف ہے اور 4 شادیاں ووراثت وگواہی میں نصف حصے سے عورت کے حقوق متاثر ہوتے ہیں اور اس طرح عورتوں کا استیصال ہورہا ہے جبکہ اسلام پر محض یہ الزام ہے اسلامی تعلیمات میں اس ضمن میں جو ہدایات ہیں وہ انصاف وتوازن برقرار رکھنے اور معاشرے میں اخلاقی اقدار وخاندانی نظام کے استحکام کے لیے ضروری ہیں بعض قوانین ناگزیر صورت میں استثنائی ہیں جو ہنگامی ووقتی پیدا ہونے والے مسائل کے حل کے لیے ہیں ان تمام قوانین میں اسلام نے ہر صورت میں انصاف وتوازن کو برقرار رکھنے کی ہدایت کی ہے
عورتوں کے مسائل سے متعلق کوئی بھی قانون ہو اس کی تشریح وتعبیر میں ہمیشہ انصاف وتوازن ومعاشرتی مفاد مقدم ہوگا لہٰذا اگر تعصب کو بالائے طاق رکھ کر اسلام میں دیے گئے عورتوں کے حقوق وفرائض کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو بظاہرامتیازی نظر آنے والے قوانین امتیازی نہیں بلکہ خود عورت کی عزت وعصمت کے محافظ اور معاشرے میں اخلاقی وخاندانی نظام کو برقرار رکھنے کے لیے ناگزیر ہیں
ہمارے ملک میں جو کہ اسلام کے نفاذ کے لیے وجود میں آیایہاں بھی عورتوں پر تشدد اور ان کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں کئی قوانین تشکیل دیے گئے ہیں ان میں عائلی قوانین 1961ء کے بعض قوانین جوکہ قرآن وسنت کے مطابق ہیں ان سے عورتوں کے حقوق کو تحفظ ہوا ہے اور اب حال ہی میں عورتوں پر مظالم اور ان کے حقوق غضب کرنے سے متعلق اسمبلی وسینیٹ نے ترمیمی بل منظور کرلیا ہے۔
اسلامی تعلیمات قرآن و حدیث کی روشنی میں عورت کو تو بہت بلند مقام و مرتبہ دیا گیا ہے لیکن اب بھی کچھ جاہل قسم کی عورتیں اپنے گلے پھاڑ کر بازاروں میں آکر لوگوں کو اپنے جسم کی نمائش کرنا چاہتی ہیں تو وہ ان کی مرضی ہے
اس طرح سے کرکے عورت کے عزت و مقام میں برتری نہیں بلکہ کہ تنزلی لا رہی ہیں
لیکن آخر میں میرا جسم میری مرضی والوں کو میں ایک بار پھر بتا دو نہ جسم تمہارا ہے نہ مرضی تمہاری ہے
جسم بھی اللہ کی طرف سے دیا گیا ہے اور مرضی بھی میرے اللہ کی ہی طرف سے ہے
کروڑوں اربوں لوگ اس دنیا میں آئے اور چلے گئے کسی کی مرضی نہ چلی
بڑے بڑے فرعون نمرود بادشاہ شہنشاہ سائنسدان ڈاکٹر دنیا میں آیا لیکن ان کی مرضی بھی نہ چلی مرضی اس دنیا جہان و کائنات میں چلنی ہے تو وہ میرے مالک کی رب الکعبہ کی چلنی ہے
نا ہی جسم میرا ہے نہ ہی مرضی میری ہے
King
Copied