مغربی تہذیب الحاد و مادہ پرستی کی طرف کیسے گئی؟
مغربی تہذیب نے جس فلسفہ اور سائنس کی آغوش میں پرورش پائی ہے وہ پانچ چھ سو سال سے دہریت‘ الحاد‘ لامذہبی اور مادہ پرستی کی طرف جا رہے ہیں۔ وہ جس تاریخ پیدا ہوئی اسی تاریخ سے مذہب کے ساتھ اس کی لڑائی شروع ہو گئی‘ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ مذہب کے خلاف عقل و حکمت کی لڑائی ہی نے اس تہذیب کو پیدا کیا۔ اگرچہ کائنات کے آثار کا مشاہدہ‘ ان کے اسرار کی تحقیق‘ ان کے کلی قوانین کی دریافت‘ ان کے مظاہر پر غور و فکر اور ان کو ترتیب دے کر قیاس و برہان کے ذریعہ سے نتائج کا استنباط‘ کوئی چیز بھی مذہب کی ضد نہیں ہے‘ مگر سوء اتفاق سے نشاۃ جدید (Renaissance) کے عہد میں جب یورپ کی نئی علمی تحریک رونما ہوئی‘ تو اس تحریک کو ان عیسائی پادریوں سے سابقہ پیش آیا جنہوں نے اپنے مذہبی معتقدات کو قدیم یونانی فلسفہ و حکمت کی بنیادوں پر قائم کر رکھا تھا اور جو یہ سمجھتے تھے کہ اگر جدید علمی تحقیقات اور فکری اجتہاد سے ان بنیادوں میں ذرا سا بھی تزلزل واقع ہوا تو اصل مذہب کی عمارت پیوندِ خاک ہو جائے گی۔ اس غلط تخیل کے زیرِ اثر انہوں نے نئی علمی تحریک کی مخالفت کی اور اس کو روکنے کے لیے قوت سے کام لیا۔ مذہبی عدالتیں (Inquisitions) قائم کی گئیں جن میں اس تحریک کے علمبرداروں کو سخت وحشیانہ اور ہولناک سزائیں دی گئیں۔ لیکن یہ تحریک ایک حقیقی بیداری کا نتیجہ تھی اس لیے تشدد سے دبنے کے بجائے اور بڑھتی چلی گئی حتیٰ کہ حریتِ فکر کے سیلاب نے مذہبی اقتدار کا خاتمہ کر دیا۔
ابتدا میں لڑائی حریت فکر کے علمبرداروں اور کلیسا کے درمیان تھی مگر چونکہ کلیسا مذہب کے نام پر آزاد خیالوں سے جنگ کر رہا تھا‘ اس لیے بہت جلدی اس لڑائی نے مسیحی مذہب اور آزاد خیالی کے درمیان جنگ کی صورت اختیار کرلی۔ اس کے بعد نفس مذہب (خواہ وہ کوئی مذہب ہو) اس تحریک کا مدِمقابل قرار دیا گیا۔ سائنٹفک طریقہ پر سوچنے کے معنی یہ قرار پائے کہ یہ طریق فکر مذہبی طریقِ فکر کی عین ضد ہے۔ جو شخص سائنٹفک طریق سے کائنات کے مسائل پر غور کرے اس پر لازم ہے کہ مذہبی نظریہ سے ہٹ کر اپنی راہ نکالے۔ کائنات کے مذہبی نظریہ کا بنیادی تخیل یہ ہے کہ عالمِ طبیعت (Physical World) کے تمام آثار اور جملہ مظاہر کی علت کسی ایسی طاقت کو قرار دیا جائے جو اس عالم سے بالاتر ہو۔ یہ نظریہ چونکہ جدید علمی تحریک کے دشمنوں کا نظریہ تھا اس لیے جدید تحریک کے علمبرداروں نے لازم سمجھا کہ خدایا کسی فوق الطبیعت (Super natural) ہستی کو فرض کیے بغیر کائنات کے معمے کو حل کرنے کی کوشش کریں اور ہر اس طریقہ کو خلافِ حکمت (Unscientific) قرار دیں جس میں خدا کا وجود فرض کر کے مسائلِ کائنات پر نظر کی گئی ہو۔ اس طرح نئے دور کے اہلِ حکمت و فلسفہ میں خدا اور روح یا روحانیت اور فوق الطبیعت کے خلاف ایک تعصب پیدا ہو گیا جو عقل و استدلال کا نتیجہ نہ تھا بلکہ سراسر جذبات کی برانگیختگی کا نتیجہ تھا۔ وہ خدا سے اس لیے تبریٰ نہ کرتے تھے کہ دلائل اور براہین سے اس کا عدم وجود اور عدم وجوب ثابت ہو گیا تھا‘ بلکہ اس سے اس لیے بیزار تھے کہ وہ ان کے اور ان کی آزادیٔ خیال کے دشمنوں کا معبود تھا۔ بعد کی پانچ صدیوں میں ان کی عقل و فکر اور ان کی علمی جدوجہد نے جتنا کام کیا اس کی بنیاد میں یہی غیرعقلی جذبہ کارفرما رہا۔
مغربی فلسفہ اور مغربی سائنس دونوں نے جب سفر شروع کیا تو اگرچہ ان کا رُخ خداپرستی کے بالکل مخالف سمت میں تھا تاہم چونکہ وہ مذہبی ماحول میں گِھرے ہوئے تھے اس لیے وہ ابتداً نیچریت (Naturalism) کو خداپرستی کے ساتھ ساتھ نباہتے رہے۔ مگر جوں جوں وہ اپنے سفر میں آگے بڑھتے گئے‘ نیچریت خدا پرستی پر غالب آتی چلی گئی حتیٰ کہ خدا کا تخیل اور خدا کے ساتھ ہر اس چیز کا تخیل جو عالمِ طبیعت سے بالاتر ہو‘ ان سے بالکل غائب ہو گیا اور وہ اس انتہا پر پہنچ گئے کہ مادہ وحرکت کے سوا کوئی شے ان کے نزدیک حقیقی نہ رہی‘ سائنس نیچریت کا ہم معنی قرار پایا گیا اور اہلِ حکمت و فلسفہ کا ایمان اس نظریہ پر قائم ہو گیا کہ ہر چیز جو ناپی اور تولی نہیں جاسکتی اس کی کوئی حقیقت ہی نہیں ہے۔
مغربی فلسفہ و سائنس کی تاریخ اس بیان کی شاہد ہے۔ ڈیکارٹ (Descartes) (متوفی ۱۶۵۰ء) جو مغربی فلسفہ کا آدم سمجھا جاتا ہے ایک طرف تو خدا کا زبردست قائل ہے اور مادہ کے ساتھ روح کا مستقل وجود بھی مانتا ہے مگر دوسری طرف وہی ہے جس نے عالم طبیعت کے آثار کی توجیہ میکانکی (Mechanical) طریق پر کرنے کی ابتداء کی اور اس طریقِ فکر کی بنیاد رکھی جو بعد میں سراسرمادہ پرستی (Materialism) بن گیا۔ ہابس (Hobbes) (م ۱۶۷۹ء) اس سے ایک قدم اور آگے بڑھ کر فوق الطبیعت (Super natural) کی کھلم کھلا مخالفت کرتا ہے‘ نظامِ عالم اور اس کی ہر شے کو میکانکی توجیہ کے قابل قرار دیتا ہے اور کسی ایسی نفسی یا روحی یا عقلی قوت کا قائل نہیں ہے جو اس مادی دنیا میں تصرف کرنے والی ہو مگر اس کے ساتھ ہی وہ خدا کو بھی مانتا ہے۔ اس حیثیت سے کہ ایسی ایک علت العلل کا ماننا ایک عقلی ضرورت ہے۔ اسی زمانہ میں سپائنوزا (Spinoza) (م ۱۶۷۷ء) اٹھا جو سترہویں صدی میں عقلیت (Rationalism) کا سب سے بڑا علمبردار تھا۔ اس نے مادہ اور روح اور خدا کے درمیان کوئی فرق نہ رکھا‘ خدا اور کائنات کو ملا کر ایک کل بنا دیا اور اس کل میں خدا کے اختیار مطلق کو تسلیم نہ کیا۔ لائبنیز (Leibnitz) (م ۱۷۱۶ء) اور لاک (Locke) (م ۱۷۰۴ء) خدا کے قائل تھے‘ مگر دونوں کا میلان نیچریت کی جانب تھا۔
یہ سترہویں صدی کا فلسفہ تھا جس میں خداپرستی اور نیچریت دونوں ساتھ ساتھ چل رہی تھیں‘ اسی طرح سائنس نے بھی سترہویں صدی تک کامل الحاد کا رنگ اختیار نہیں کیا۔ کوپرنیکس (Copernicus) کپلر (Kepler) گیلیلو (Galileo) نیوٹن اور سائنس کے دوسرے علمبرداروں میں سے کوئی بھی خدا کا منکر نہ تھا۔ مگر یہ کائنات کے اسرار کی جستجو میں الٰہی نظریہ سے قطع نظر کر کے ان قوتوں کو تلاش کرنا چاہتے تھے جو اس نظام کو چلا رہی ہیں اور ان قوانین کو معلوم کرنے کے خواہشمند تھے جن کے تحت یہ نظام چل رہا ہے۔ یہ الٰہی نقطۂ نظر سے قطع نظر کرنا ہی دراصل اس دہریت اور نیچریت کا تخم تھا جو بعد میں حریتِ فکر کے درخت سے پیدا ہوئی۔ لیکن سترہویں صدی کے حکماء کو اس کا شعور نہ تھا۔ وہ نیچریت اور خدا پرستی میں کوئی خطِ امتیاز نہ کھینچ سکے اور یہی سمجھتے رہے کہ یہ دونوں ایک ساتھ نبھ سکتی ہیں۔
اٹھارہویں صدی میں یہ حقیقت نمایاں ہو گئی کہ جو طریقِ فکر خد اکی ہستی کو نظرانداز کر کے نظامِ کائنات کی جستجو کرے گا وہ مادیت‘ بے دینی اور الحاد تک پہنچے بغیر نہ رہ سکے گا۔ اس صدی میں جان ٹولینڈ (John Toland) ڈیوڈ ہارٹلے (David Hartley) جوزف پریسٹلے (Josoph priestley) والٹیر (Voltaire) میٹری (La Mettrie) ہول باخ (Hlbach) کیبانیس (Cabanis) ڈینس ڈائیڈیرو (Denis Diderot) مانٹسکیو (Montisque) روسو (Rosseau) اور ایسے ہی دوسرے آزاد خیال فلاسفر و حکماء پیدا ہوئے جنہوں نے یا تو اعلانیہ خدا کے وجود سے انکار کیا یا اگر بعض نے اسے تسلیم کیا بھی تو اس کی حیثیت ایک دستوری فرماں روا سے زیادہ نہ سمجھی جو نظامِ کائنات کو ایک مرتبہ حرکت میں لے آنے کے بعد گوشہ نشین ہو گیا ہے اور اب اس نظام کے چلانے میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ یہ لوگ عالمِ طبیعت‘ اور دنیائے مادہ و حرکت کے باہر کسی چیز کے وجود کو ماننے کے لیے تیار نہ تھے اور ان کے نزدیک حقیقت صرف انہی چیزوں کی تھی جو ہمارے مشاہدہ و تجربہ میں آتی ہیں۔ ہیوم (Hume) نے اپنی تجربیت (Empiricism) اور فلسفۂ تشکیک (Scepticism) سے اس طریقِ فکر کی زبردست تائید کی اور معقولات کی صحت کے لیے بھی تجربہ ہی کو معیار قرار دینے پر زور دیا۔ برکلے (Berkeley) نے مادیت کی اس بڑھتی ہوئی رو کا جاں توڑ مقابلہ کیا مگر وہ اس کو نہ روک سکا۔ ہیگل (Hegal) نے مادیت کے مقابلہ میں تصوریت (Idealism) کو فروغ دینا چاہا مگر ٹھوس مادے کے مقابلہ میں لطیف تصور کی پرستش نہ ہوئی۔ کانٹ (Kant) نے بیچ کی یہ راہ نکالی کہ خدا کی ہستی‘ روح کا بقا‘ اور ارادہ کی آزادی ان چیزوں میں سے نہیں ہیں جو ہمارے علم میں آسکیں۔ یہ چیزیں مانی نہیں جاسکتیں۔ تاہم ان پر ایمان لایا جا سکتا ہے اور حکمتِ عملی (Practical Wisdom) اس کی مقتضی ہے کہ ان پر ایمان لایا جائے۔ یہ خدا پرستی اور نیچریت کے درمیان مصالحت کی آخری کوشش تھی لیکن ناکام ہوئی۔ کیونکہ جب عقل و فکر کی گمراہی نے خدا کو محض وہم کی پیداوار یا حد سے حد ایک معطل اور بے اختیار ہستی قرار دے لیا تو محض اخلاق کی حفاظت کے لیے اس کو ماننا‘ اس سے ڈرنا اور اس کی خوشنودی چاہنا سراسر ایک غیرعاقلانہ فعل تھا۔
انیسویں صدی میں مادیت اپنے کمال کو پہنچ گئی‘ فوگت (Vogt) بوخنر (Bochner) سولبے (Czolbe) کومت (Comte) مولشات (Moleschotte) اور دوسرے حکما و فلاسفہ نے مادہ اور اس کے خواص کے سوا ہر شے کے وجود کو باطل قرار دیا۔ مِل (Mill) نے فلسفہ میں تجربیت اور اخلاق میں افادیت (Utiliterianism) کو فروغ دیا۔ اسپنسر (Spencer) نے فلسفیانہ ارتقائیت اور نظامِ کائنات کے خود بخود پیدا ہونے اور زندگی کے آپ سے آپ رونما ہوجانے کا نظریہ پوری قوت کے ساتھ پیش کیا۔ حیاتیات (Biology) عضویات (Physiology) ارضیات (Geology) اور حیوانیات (Zoology) کے اکتشافات‘ عملی سائنس کی ترقی اور مادی وسائل کی کثرت نے یہ خیال پوری پختگی کے ساتھ دلوں میں راسخ کر دیا کہ کائنات آپ سے آپ وجود میں آتی ہے‘ کسی نے اس کو پیدا نہیں کیا۔ آپ سے آپ لگے بندھے قوانین کے تحت چل رہی ہے‘ کوئی اس کو چلانے والا نہیں ہے۔ آپ سے آپ ترقی کے منازل طے کرتی رہی ہے‘ کسی فوق الطبیعت ہستی کا ہاتھ اس خود بخود حرکت کرنے والی مشین میں کام نہیں کر رہا ہے۔ بے جان مادے میں جان کسی کے امر سے نہیں پڑتی‘ بلکہ خود مادہ جب اپنے نظم میں ترقی کرتا ہے تو اس میں جان پڑجاتی ہے۔نمو‘ حرکتِ ارادی‘ احساس‘ شعور‘ فکر‘ سب اسی ترقی یافتہ مادہ کے خواص ہیں۔ حیوان اور انسان سب کے سب مشینیں ہیں جو طبیعی قوانین کے تحت چل رہی ہیں۔ ان مشینوں کے پرزے جس طور سے ترتیب پاتے ہیں اسی طور کے افعال ان سے صادر ہوتے ہیں۔ ان میں کوئی اختیار اور کوئی آزاد ارادہ (Free will) نہیں ہے‘ ان کے نظام کا درہم برہم ہو جانا‘ ان کی انرجی کا خرچ ہو جانا ہی ان کی موت ہے جو فنائے محض کی ہم معنی ہے۔ جب مشین ٹوٹ پھوٹ گئی تو اس کے خواص بھی باطل ہو گئے۔ اب ان کے لیے حشر اور باردگر پیدا ہونے کا کوئی امکان نہیں۔
ڈارون کے نظریہ ارتقاء نے اس نیچریت اور مادیت کو استحکام بخشے اور ایک مدلل اور منظم علمی نظریہ کی حیثیت دینے میں سب سے بڑھ کر حصہ لیا۔ اس کی کتاب اصل الانواع (Origin of Species) جو ۱۸۵۹ء میں پہلی مرتبہ شائع ہوئی‘ سائنس کی دنیا میں ایک انقلاب برپا کرنے والی کتاب سمجھی جاتی ہے۔ اس نے ایک ایسے طریق استدلال سے جو انیسویں صدی کے سائنٹفک دماغوں کے نزدیک استدلال کا محکم ترین طریقہ تھا‘ اس نظریہ پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی کہ کائنات کا کاروبار خدا کے بغیر چل سکتا ہے‘ آثار و مظاہر فطرت کے لیے خود فطرت کے قوانین کے سوا کسی اور علت کی حاجت نہیں‘ زندگی کے ادنیٰ مراتب سے لے کر اعلیٰ مراتب تک موجودات کا ارتقاء ایک ایسی فطرت کے تدریجی عمل کا نتیجہ ہے جو عقل و حکمت کے جوہر سے عاری ہے۔ انسان اور دوسری انواع حیوانی کو پیدا کرنے والا کوئی صانع حکیم نہیں ہے بلکہ وہی ایک جاندار مشین جو کبھی کیڑے کی شکل میں رینگا کرتی تھی‘ تنازع للبقا‘ بقائے اصلح اور انتخاب طبیعی کے نتیجہ کے طور پر ذی شعور اور ناطق انسان کی شکل میں نمودار ہو گئی۔
یہی وہ فلسفہ اور سائنس ہے جس نے مغربی تہذیب کو پیدا کیا ہے۔ اس میں نہ کسی علیم و قدیر خدا کے خوف کی گنجائش ہے‘ نہ نبوت اور وحی و الہام کی ہدایت کا کوئی وزن‘ نہ موت کے بعد کسی دوسری زندگی کا تصور‘ نہ حیاتِ دنیا کے اعمال پر محاسبے کا کوئی کھٹکا‘ نہ انسان کی ذاتی ذمہ داری کا کوئی سوال‘ نہ زندگی کے حیوانی مقاصد سے بالاتر کسی مقصد اور کسی نصب العین کا کوئی امکان۔ یہ خالص مادی تہذیب ہے۔ اس کا پورا نظام خدا ترسی‘ راست روی‘ صداقت پسندی‘ حق جوئی‘ اخلاق‘ دیانت‘ امانت‘ نیکی‘ حیاء‘ پرہیزگاری اور پرہیزگاری کے ان تصورات سے خالی ہے.
تحریر سید مودودی ، بحوالہ: ’’ترجمان القرآن‘‘ لاہور۔ جمادی الاخری ۱۳۵۳ھ۔ ستمبر ۱۹۳۴ء)