ایمانی صفات صبر کا بیان

ایمانی صفات صبر کا بیان
مصنف:
حضرت مولانا مفتی سید مختار الدین شاہ صاحب دامت برکاتہم العالیه

🌾 قسط 24 🌴

📿 مصائب پر صبر کرنا 📿

۱۔ مصائب پر صبر کرنا،یعنی فقروتنگ دستی،بیماری،زخم اور رشتہ داروں کی موت پر صبرکرنا۔ انسان جب بیمار ہوجاتاہے یااس کامال ضائع ہوجاتاہے یازخمی ہوجاتاہے یااس کاکوئی رشتہ دار مرجاتاہے یاکسی اور مصیبت میں پھنس جاتاہے تو ایسی صورتوں میں نفس کی خواہش اور جذبہ یہ ہوتاہے کہ واویلاکرے ،گلہ شکوہ کرے وغیرہ وغیرہ۔ مصائب کے وقت صبر کامطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ پر بدگمانی نہ کرے اور نہ اللہ تعالیٰ پر اعتراض کرے مثلاً یہ نہ کہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ مصیبت ہم پر کیوں نازل کی؟نہ یہ خیال دل میں لائے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ہی دیکھا ہے کہ بلائیں اور مصیبتیں ہم پر نازل کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ،اور نہ مصیبت کے وقت گریبان پھاڑے،نہ ماتم کرکے چہرے وغیرہ کومارے۔ مصائب کے وقت اپنے نفس کو قابو میں رکھنے اور نفس کوحق پر ثابت اور باندھے رکھنے کوعام اصطلاح میں ’’صبر‘‘ کہاجاتاہے اور اس کی ضد کو ’’جزع فزع‘‘ کہتے ہیں۔
مصائب پر صبر کی فضیلت
صبر کی اس صورت کے بہت سے فضائل میں سے قرآن مجید اور رسول اللہ ﷺکے ارشادات اور واقعات میں سے بطورِ نمونہ کچھ پڑھ لیجیے۔ اللہ تعالیٰ کاارشادہے کہ:
وَلَنَبلُوَنَّکُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ
وَالثَّمَرَاتِ ط وَبَشِّرِ الصّٰبِرِینَ ۞الَّذِیْنَ اِذَااَصَابَتْھُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَالُوْاِنَّا
لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیہِ رَاجِعُوْنَ۞ اُولٰئِکَ عَلَیْھِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّھِمْ وَرَحْمَۃٌ
وَاُولٰئِکَ ھُمُ الْمُھْتَدُوْنَ۞
’’اور (یادرکھو!) ہم کسی قدر خوف وخطر، بھوک کی تکلیف (یعنی فقرفاقہ) ،مال وجان اور پھلوں (یعنی پیداواروغیرہ) کے نقصانات میں (مبتلاکرکے) ضرور تمہیں آزمائیں گے اور (ان حالات میں جو لوگ حق پر استقامت اختیار کرکے صبر کریں گے تو) آپ ایسے صابرین کو (فتح وکامرانی اور فلاح ونجات کی) خوشخبری سنادیجیے (جن کاحال یہ ہے کہ) جب ان پر کوئی مصیبت آپڑتی ہے تو وہ (دل وزبان سے یہی کہتے ہیں )کہ انا للہ واناالیہ راجعون (یعنی ہم صرف اللہ تعالیٰ ہی کے ہیں اور یقیناً ہم سب اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹ کرجانے والے ہیں)۔یہی لوگ ہیں جن پران کے پروردگار کی طرف سے طرح طرح کی عنایتیں اور رحمت ہیں اور یہی لوگ سیدھی راہ پر ثابت قدم ہیں۔‘‘ (سورۂبقرہ: آیت ۱۵۵تا۱۵۷)
حضرت ابوامامہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایاکہ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے کہ:یَا ابْنَ اٰدَمَ اِنْ صَبَرْتَ وَاحْتَسَبْتَ عِنْدَ الصَّدْمَۃِ الْاُوْلٰی لَمْ اَرْضَ لَکَ ثَوَابًادُوْنَ الْجنَّۃِ یعنی ’’اے بنی آدم! اگر تونے صدمہ(یعنی تکلیف اور مصیبت) کے ابتدائی مرحلہ میں صبر کیااور (اس صبر میں) میری رضااور ثواب کی نیت کی تومیں تیرے لیے جنت سے کم کسی اجروثواب پر راضی نہیں ہوتا۔‘‘
(ابن ماجہ، مشکوٰۃ)
مطلب یہ ہے کہ جو مسلمان کسی مصیبت اور تکلیف کے پہنچنے کے ابتدائی وقت میں اللہ تعالیٰ کی رضا وثواب کی نیت سے صبر کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس بندہ کو جنت دیے بغیر راضی اور خوش نہیں ہوگا، اس کو اس صبرکے بدلے میں جنت میں ضرور داخل فرمائے گا۔

جاری ہے

Farhan Shah:

This website uses cookies.